شرر سے اشک ہیں اب چشم تر میں

شرر سے اشک ہیں اب چشم تر میں
لگی ہے آگ اک میرے جگر میں
نگین عاشق و معشوق کے رنگ
جدا رہتے ہیں ہم وے ایک گھر میں
بلا ہنگامہ تھا کل اس کے در پر
قیامت گم ہوئی اس شور و شر میں
بگولے کی روش وحشت زدہ ہم
رہے برچیدہ دامن اس سفر میں
سماں یاں سانجھ کا سا ہو نہ جاتا
اثر ہوتا اگر آہ سحر میں
لچکنے ہی نے ہم کو مار رکھا
کٹاری تو نہ تھی اس کی کمر میں
رہا تھا دیکھ اودھر میرؔ چلتے
عجب اک ناامیدی تھی نظر میں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *