کس کس ناز سے وے آتے پر آنکھ نہ ان سے ملاتے ہم
کعبے سے کر نذر اٹھے سو خرج راہ اے وائے ہوئے
ورنہ صنم خانے میں جا زنار گلے سے بندھاتے ہم
ہاتھی مست بھی آوے چلا تو اس سے منھ کو پھیر نہ لیں
پھرتے ہیں سرمست محبت مے ناخوردہ ماتے ہم
ہائے جوانی وہ نہ گلے لگتا تو خشم عشقی سے
نعل جڑی جاتی چھاتی پر گل ہاتھوں پر کھاتے ہم
عشق تو کار خوب ہے لیکن میرؔ کھنچے ہے رنج بہت
کاش کے عالم ہستی میں بے عشق و محبت آتے ہم