طاقت تعب کی غم میں تمھارے نہیں ہے اب

طاقت تعب کی غم میں تمھارے نہیں ہے اب
گویا کہ جان جسم میں سارے نہیں ہے اب
کل کچھ صبا ہوئی تھی گل افشاں قفس میں بھی
وہ بے کلی تو جان کو بارے نہیں ہے اب
جیتے تو لاگ پلکوں کی اس کی کہیں گے ہم
کچھ ہوش ہم کو چھڑیوں کے مارے نہیں ہے اب
زردی چہرہ اب تو سفیدی کو کھنچ گئی
وہ رنگ آگے کا سا پیارے نہیں ہے اب
مسکن جہاں تھا دل زدہ مسکیں کا ہم تو واں
کل دیر میرؔ میرؔ پکارے نہیں ہے اب
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *