عشق نے خوار و ذلیل کیا ہم سر کو بکھیرے پھرتے ہیں

عشق نے خوار و ذلیل کیا ہم سر کو بکھیرے پھرتے ہیں
سوز و درد و داغ و الم سب جی کو گھیرے پھرتے ہیں
ہر شب ہوں سرگشتہ و نالاں اس بن کوچہ و برزن میں
یاس نہیں ہے اب بھی دیکھوں کب دن میرے پھرتے ہیں
دل لشکر میں ایک سپاہی زادے نے ہم سے چھین لیا
ہم درویش طلب میں اس کی ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں
بے خود اس کی زلف و رخ کے کاہے کو آپ میں پھر آئے
ہم کہتے ہیں تسلی دل کو سانجھ سویرے پھرتے ہیں
نقش کسو کا درون سینہ گرم طلب ہیں ویسے رنگ
جیسی خیالی پاس لیے تصویر چتیرے پھرتے ہیں
برسے اگر شمشیر سروں پر منھ موڑیں زنہار نہیں
سیدھے جانے والے ادھر کے کس کے پھیرے پھرتے ہیں
پائے نگار آلودہ کہیں سانجھ کو میرؔ نے دیکھے تھے
صبح تک اب بھی آنکھوں میں اس کی پاؤں تیرے پھرتے ہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *