عیدیں آئیں بارہا لیکن نہ وے آ کر ملے

عیدیں آئیں بارہا لیکن نہ وے آ کر ملے
رہتے ہیں ان کے گلے لگنے کے برسوں سے گلے
اس زمانے کی تری سے لہر بہر اگلی کہاں
بے تہی کرنے لگے دریا دلوں کے حوصلے
غنچگی میں دیکھے ہیں صد رنگ جور آسماں
اب جو گل سا بکھرا ہوں دیکھوں کہ کیسا گل کھلے
سارے عالم کے حواس خمسہ میں ہے انتشار
ایک ہم تم ہی نہیں معلوم ہوتے دہ دلے
میرؔ طے ہو گا بیابان محبت کس طرح
راہ ہے پرخار میرے پاؤں میں ہیں آبلے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *