فرصت نہیں تنک بھی کہیں اضطراب کو

فرصت نہیں تنک بھی کہیں اضطراب کو
کیا آفت آ گئی مرے اس دل کی تاب کو
میری ہی چشم تر کی کرامات ہے یہ سب
پھرتا تھا ورنہ ابر تو محتاج آب کو
گذری ہے شب خیال میں خوباں کے جاگتے
آنکھیں لگا کے اس سے میں ترسوں ہوں خواب کو
خط آ گیا پر اس کا تغافل نہ کم ہوا
قاصد مرا خراب پھرے ہے جواب کو
تیور میں جب سے دیکھے ہیں ساقی خمار کے
پیتا ہوں رکھ کے آنکھوں پہ جام شراب کو
اب تو نقاب منھ پہ لے ظالم کہ شب ہوئی
شرمندہ سارے دن تو کیا آفتاب کو
کہنے سے میرؔ اور بھی ہوتا ہے مضطرب
سمجھاؤں کب تک اس دل خانہ خراب کو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *