کب سے قیدی ہیں پہ ہے نالش بسیار ہنوز

کب سے قیدی ہیں پہ ہے نالش بسیار ہنوز
دل بہاران چمن کا ہے گرفتار ہنوز
وہ مہ چار دہ اس شہر سے کب کا نکلا
ہر گلی جھانکتے پھرتے ہیں طلبگار ہنوز
بالا بالا ہی بہت عشق میں مارے گئے یار
وہ تہ دل سے کسو کا نہ ہوا یار ہنوز
سال میں ابر بہاری کہیں آ کر برسا
لوہو برسا رہے ہیں دیدۂ خونبار ہنوز
اب کے بالیدن گلہا تھا بہت دیکھو نہ میرؔ
ہمسر لالہ ہے خار سر دیوار ہنوز
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *