کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے

کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
دن گذر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے
رہ گئے گاہ تبسم پہ گہے بات ہی پر
بارے اے ہم نشیں اوقات چلی جاتی ہے
ٹک تو وقفہ بھی کر اے گردش دوراں کہ یہ جان
عمر کے حیف ہی کیا سات چلی جاتی ہے
یاں تو آتی نہیں شطرنج زمانہ کی چال
اور واں بازی ہوئی مات چلی جاتی ہے
روز آنے پہ نہیں نسبت عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
شیخ بے نفس کو نزلہ نہیں ہے ناک کی راہ
یہ ہے جریان منی دھات چلی جاتی ہے
خرقہ مندیل و ردا مست لیے جاتے ہیں
شیخ کی ساری کرامات چلی جاتی ہے
ہے موذن جو بڑا مرغ مصلی اس کی
مستوں سے نوک ہی کی بات چلی جاتی ہے
پاؤں رکتا نہیں مسجد سے دم آخر بھی
مرنے پر آیا ہے پر لات چلی جاتی ہے
ہر سحر در پئے آرام مے آشاماں ہے
مکر و طامات کی اک گھات چلی جاتی ہے
ایک ہم ہی سے تفاوت ہے سلوکوں میں میرؔ
یوں تو اوروں کی مدارات چلی جاتی ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *