ہم تو ہوں بدگمان جو قاصد رسول ہو
چاہوں تو بھرکے کولی اٹھا لوں ابھی تمھیں
کیسے ہی بھاری ہو مرے آگے تو پھول ہو
سرمہ جو نور بخشے ہے آنکھوں کو خلق کی
شاید کہ راہ یار کی ہی خاک دھول ہو
جاویں نثار ہونے کو ہم کس بساط پر
اک نیم جاں رکھیں ہیں سو وہ جب قبول ہو
ہم ان دنوں میں لگ نہیں پڑتے ہیں صبح و شام
ورنہ دعا کریں تو جو چاہیں حصول ہو
دل لے کے لونڈے دلی کے کب کا پچا گئے
اب ان سے کھائی پی ہوئی شے کیا وصول ہو
ناکام اس لیے ہو کہ چاہو ہو سب کچھ آج
تم بھی تو میرؔ صاحب و قبلہ عجول ہو