ہونٹوں پہ جان آئی پر آہ وے نہ آئے
زخموں پہ زخم جھیلے داغوں پہ داغ کھائے
یک قطرہ خون دل نے کیا کیا ستم اٹھائے
اس کی طرف کو ہم نے جب نامہ بر چلائے
ان کا نشاں نہ پایا خط راہ میں سے پائے
خوں بستہ جب تلک تھیں در یا رکے کھڑے تھے
آنسو گرے کروڑوں پلکوں کے ٹک ہلائے
اس جنگ جو کے زخمی اچھے نہ ہوتے دیکھے
گل جب چمن میں آئے وے زخم سب دکھائے
بڑھتیں نہیں پلک سے تا ہم تلک بھی پہنچیں
پھرتی ہیں وے نگاہیں پلکوں کے سائے سائے
پر کی بہار میں جو محبوب جلوہ گر تھے
سو گردش فلک نے سب خاک میں ملائے
ہر قطعۂ چمن پر ٹک گاڑ کر نظر کر
بگڑیں ہزار شکلیں تب پھول یہ بنائے
یک حرف کی بھی مہلت ہم کو نہ دی اجل نے
تھا جی میں آہ کیا کیا پر کچھ نہ کہنے پائے
چھاتی سراہ ان کی پائیز میں جنھوں نے
خار و خس چمن سے ناچار دل لگائے
آگے بھی تجھ سے تھا یاں تصویر کا سا عالم
بے دردی فلک نے وے نقش سب مٹائے
مدت ہوئی تھی بیٹھے جوش و خروش دل کو
ٹھوکر نے اس نگہ کی آشوب پھر اٹھائے
اعجاز عشق ہی سے جیتے رہے وگرنہ
کیا حوصلہ کہ جس میں آزار یہ سمائے
دل گر میاں انھوں کی غیروں سے جب نہ تب تھیں
مجلس میں جب گئے ہم غیرت نے جی جلائے
جیتے تو میرؔ ہر شب اس طرز عمر گذری
پھر گور پر ہماری لے شمع گو کہ آئے