منت بھی میں کروں تو نہ ہرگز منا کرو
بندے سے کی ہے جن نے یہ خصمی خدا کرے
اس سے بھی تم خصومت جانی رکھا کرو
عنقا سا شہرہ ہوں پہ حقیقت میں کچھ نہیں
تم دور ہی سے نام کو میرے سنا کرو
بیماری جگر کی شفا سے تو دل ہے جمع
اب دوستی سے مصلحتاً کچھ دوا کرو
ہم بے خودان مجلس تصویر اب گئے
تم بیٹھے انتظار ہمارا کیا کرو
جی مارتے ہیں ناز و کرشمہ بالاتفاق
جینا مرا جو چاہو تو ان کو جدا کرو
میں نے کہا کہ پھنک رہی ہے تن بدن میں آگ
بولا کہ عشق ہے نہ پڑے اب جلا کرو
دل جانے کا فسانہ زبانوں پہ رہ گیا
اب بیٹھے دور سے یہ کہانی کہا کرو
اب دیکھوں اس کو میں تو مرا جی نہ چل پڑے
تم ہو فقیر میرؔ کبھو یہ دعا کرو