نہ جاتے اس طرف تو ہاتھ سے اپنے نہ جاتے تم
شکیبائی کہاں جو اب رہے جاتی ہوئی عزت
کدھر وہ ناز جس سے سرفرو ہرگز نہ لاتے تم
یہ حسن خلق تم میں عشق سے پیدا ہوا ورنہ
گھڑی کے روٹھے کو دو دو پہر تک کب مناتے تم
نظر دزدیدہ کرتے ہو جھکی رکھتے ہو پلکوں کو
لگی ہوتیں نہ آنکھیں تو نہ آنکھوں کو چھپاتے تم
یہ ساری خوبیاں دل لگنے کی ہیں مت برا مانو
کسو کا بار منت بے علاقہ کب اٹھاتے تم
پھرا کرتے تھے جب مغرور اپنے حسن پر آگے
کسو سے دل لگا جو پوچھتے ہو آتے جاتے تم
جو ہوتے میرؔ سو سر کے نہ کرتے اک سخن ان سے
بہت تو پان کھاتے ہونٹ غصے سے چباتے تم