الٰہی اس بلائے ناگہاں پر بھی بلا آوے
رکا جاتا ہے جی اندر ہی اندر آج گرمی سے
بلا سے چاک ہی ہو جاوے سینہ ٹک ہوا آوے
ترا آنا ہی اب مرکوز ہے ہم کو دم آخر
یہ جی صدقے کیا تھا پھر نہ آوے تن میں یا آوے
یہ رسم آمد و رفت دیار عشق تازہ ہے
ہنسی وہ جائے میری اور رونا یوں چلا آوے
اسیری نے چمن سے میری دل گرمی کو دھو ڈالا
وگرنہ برق جا کر آشیاں میرا جلا آوے
امید رحم ان سے سخت نافہمی ہے عاشق کی
یہ بت سنگیں دلی اپنی نہ چھوڑیں گر خدا آوے
یہ فن عشق ہے آوے اسے طینت میں جس کی ہو
تو زاہد پیر نابالغ ہے بے تہ تجھ کو کیا آوے
ہمارے دل میں آنے سے تکلف غم کو بیجا ہے
یہ دولت خانہ ہے اس کا وہ جب چاہے چلا آوے
برنگ بوئے غنچہ عمر اک ہی رنگ میں گذرے
میسر میرؔ صاحب گر دل بے مدعا آوے