اے نقش وہم آیا کیدھر خیال تیرا
کیا ہے جو ہو زنخ زن مہ پاس کا ستارہ
ہے داغ جان عالم ٹھوڑی کا خال تیرا
اے گل مغل بچہ وہ مرزا ہے اس کے آگے
کچھ بھی بھلا لگے ہے منھ لال لال تیرا
تجھ روئے خوئے فشاں سے انجم ہی کیا خجل ہیں
ہے آفتاب کو بھی اے ماہ سال تیرا
اب صبح پاس گل کے ہو کر نہیں نکلتی
دیکھا نسیم نے بھی شاید جمال تیرا
پہلا قدم ہے انساں پامال مرگ ہونا
کیا جانے رفتہ رفتہ کیا ہو مآل تیرا
ہو گی جو چل سرمو پنہاں نہیں رہے گی
اک دن زبان ہو گا ایک ایک بال تیرا
تفصیل حال میری تھی باعث کدورت
سو جی کو خوش نہ آیا ہرگز ملال تیرا
کچھ زرد زرد چہرہ کچھ لاغری بدن میں
کیا عشق میں ہوا ہے اے میرؔ حال تیرا