اس چرخ نے کیاں ہیں ہم سے بہت ادائیں
دیکھا کہاں وہ نسخہ اک روگ میں بساہا
جی بھر کبھو نہ پنپا بہتیری کیں دوائیں
اک رنگ گل نے رہنا یاں یوں نہیں کیا ہے
اس گلشن جہاں میں ہیں مختلف ہوائیں
ہے فرش عرش تک بھی قلب حزیں کا اپنے
اس تنگ گھر میں ہم نے دیکھی ہیں کیا فضائیں
چہرے کے زخم ناخن کے سے کہاں کہ گویا
گھر سے نکلتے ہی ہم تلواریں منھ پہ کھائیں
شب نالہ آسماں تک جی سخت کر کے پہنچا
تھیں نیم کشتۂ یاس اکثر مری دعائیں
روکش تو ہو ترا پر آئینے میں کہاں یہ
رعنائیاں ادائیں رنگینیاں صفائیں
ہے امر سہل چاہت لیکن نباہ مشکل
پتھر کرے جگر کو تب تو کرے وفائیں
ناز بتان سادہ ہے اللہ اللہ اے میرؔ
ہم خط سے مٹ گئے پر ان کے نہیں ہے بھائیں