بات مخفی کہتے ہو غصے سے جھنجھلائے ہوئے
اس مرے نوباوۂ گلزار خوبی کے حضور
اور خوباں جوں خزاں کے گل ہیں مرجھائے ہوئے
چھپ کے دیکھا ہمرہاں نے اس کو سو غش آ گیا
حیف بیخود ہو گئے ہم پھر بخود آئے ہوئے
ہر زماں لے لے اٹھو ہو تیغ بیٹھا مجھ کو دیکھ
آئے ہو مستانہ کس دشمن کے بہکائے ہوئے
گھر میں جی لگتا نہیں اس بن تو ہم ہو کر اداس
دور جاتے ہیں نکل ہجراں سے گھبرائے ہوئے
ایک دن موئے دراز اس کے کہیں دیکھے تھے میں
ہیں گلے کے ہار اب وے بال بل کھائے ہوئے
دشمنی سے سایۂ عاشق کو جو مارے ہے تیر
اس کماں ابرو کے جا کر میرؔ ہمسائے ہوئے