کیا عشق بے محابا ستھراؤ کر رہا ہے

کیا عشق بے محابا ستھراؤ کر رہا ہے
میداں بزن گہوں کے کشتوں سے بھر رہا ہے
غیرت سے دلبری کی ڈر چاندنی نہ دیکھی
مہتابی ہی رخ اس کا پیش نظر رہا ہے
خوں ریز ناتواں میں اتنا نہ کوئی بولا
کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے
پائیز کب کرے ہے افسردہ خستہ اتنا
تو بھی جدا کسو سے اے گل مگر رہا ہے
خجلت سے آج کل کیا ان نے کیا کنارہ
دریا ہمیشہ میرے گریے سے تر رہا ہے
میں اک نگاہ گاہے خوش رو کوئی نہ دیکھا
الفت رہی ہے جس سے اس ہی کا ڈر رہا ہے
رہتا نہیں ہے رکھے تھمتا نہیں تھمائے
دل اب تڑپ تڑپ کر اک ظلم کر رہا ہے
یہ کارواں سرا تو رہنے کی گوں نہ نکلی
ہر صبح یاں سے ہم کو عزم سفر رہا ہے
بعد از نماز سجدہ اس شکر کا کروں ہوں
روزوں کا چاند پیدا سب بے خبر رہا ہے
کیا پھر نظر چڑھا ہے اے میرؔ کوئی خوش رو
یہ زرد زرد چہرہ تیرا اتر رہ ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *