پھولا پھرے ہے مرغ چمن باغ باغ ہے
وہ دل نہیں رہا ہے نہ اب وہ دماغ ہے
جی تن میں اپنے بجھتا سا کوئی چراغ ہے
قامت سے اس کی سرنگوں رہتے ہیں سرو و گل
خوبی سے اس کی لالۂ صد برگ داغ ہے
یارب رکھیں گے پنبہ و مرہم کہاں کہاں
سوز دروں سے ہائے بدن داغ داغ ہے
مدت ہوئی کہ زانو سے اٹھتا نہیں ہے سر
کڑھنے سے رات دن کے ہمیں کب فراغ ہے
گھر گھر پھرے ہے جھانکتی ہر صبح جو نسیم
پردے میں کوئی ہے کہ یہ اس کا سراغ ہے
صولت فقیری کی نہ گئی مر گئے پہ بھی
اب چشم شیر گور کا میری چراغ ہے
لگ نکلی ہے کسو کی مگر بکھری زلف سے
آنے میں باد صبح کے یاں اک دماغ ہے
نابخردی سے مرغ دل ناتواں پہ میرؔ
اس شوخ لڑکے سے مجھے باہم جناغ ہے