عشق کیسا جس میں اتنی روسیاہی بھی نہ ہو
لطف کیا آزردہ ہو کر آپ سے ملنے کے بیچ
ٹک تری جانب سے جب تک عذر خواہی بھی نہ ہو
چاہتا ہے جی کہ ہم تو ایک جا تنہا ملیں
ناز بے جا بھی نہ ہووے کم نگاہی بھی نہ ہو
مجمع ترکاں ہے کوئی دیکھیو جا کر کہیں
جس کا میں کشتہ ہوں اس میں وہ سپاہی بھی نہ ہو
مجھ کو آوارہ جو رکھتا ہے مگر چاہے ہے چرخ
ماتم آسائش غفراں پناہی بھی نہ ہو
ناز برداری تری کرتے تھے اک امید پر
راستی ہم سے نہیں تو کج کلاہی بھی نہ ہو
یہ دعا کی تھی تجھے کن نے کہ بہر قتل میرؔ
محضر خونیں پہ تیرے اک گواہی بھی نہ ہو