کیونکر مجھ کو نامہ نمط ہر حرف پہ پیچ و تاب نہ ہو

کیونکر مجھ کو نامہ نمط ہر حرف پہ پیچ و تاب نہ ہو
سو سو قاصد جان سے جاویں یک کو ادھر سے جواب نہ ہو
گل کو دیکھ کے گلشن کے دروازے ہی سے پھر آیا
کیا مل بیٹھیے اس سے بھلا جو صحبت ہی کا باب نہ ہو
مستی خرابی سر پر لائی کعبے سے اٹھ دیر گیا
جس کو خدا نے خراب کیا ہو پھر وہ کیونکے خراب نہ ہو
خلع بدن کرنے سے عاشق خوش رہتے ہیں اس خاطر
جان و جاناں ایک ہیں یعنی بیچ میں تن جو حساب نہ ہو
خشم و خطاب جبیں پر چیں تو حسن ہے گل رخساروں کا
وہ محبوب خنک ہوتا ہے جس میں ناز و عتاب نہ ہو
میں نے جو کچھ کہا کیا ہے حد و حساب سے افزوں ہے
روز شمار میں یارب میرے کہے کیے کا حساب نہ ہو
صبر بلا ہائے عشقی پر حوصلے والے کرتے ہیں
رحمت ہے اس خستہ جگر کو دل جس کا بیتاب نہ ہو
جس شب گل دیکھا ہے ہم نے صبح کو اس کا منھ دیکھا
خواب ہمارا ہوا ہوا ہے لوگوں کا سا خواب نہ ہو
نہریں چمن کی بھر رکھی ہیں گویا بادۂ لعلیں سے
بے عکس گل و لالہ الٰہی ان جویوں میں آب نہ ہو
اس دن میں تو مستانہ ہوتا ہوں کوئی کوچہ گدا
جس دن کاسۂ چوبیں میں میرے یک جرعہ بھی شراب نہ ہو
تہ داری کچھ دیدۂ تر کی میرؔ نہیں کم دریا سے
جوشاں شور کناں آ جاوے یہ شعلہ سیلاب نہ ہو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *