گرچہ آتے ہیں گل ہزار ہنوز

گرچہ آتے ہیں گل ہزار ہنوز
نہ گیا دل سے روئے یار ہنوز
بے قراری میں ساری عمر گئی
دل کو آتا نہیں قرار ہنوز
خاک مجنوں جہاں ہے صحرا میں
واں سے اٹھتا ہے اک غبار ہنوز
کب سے ہے وہ خلاف وعدہ ولے
دل کو اس کا ہے اعتبار ہنوز
قیس و فرہاد پر نہیں موقوف
عشق لاتا ہے مرد کار ہنوز
برسوں گذرے ہیں اس سے ملتے ولے
صحبت اس سے نہیں بر آر ہنوز
عشق کرتے ہوئے تھے بے خود میرؔ
اپنا ان کو ہے انتظار ہنوز
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *