نہیں اس راہ میں فریادرس بس
کبھو دل کی نہ کہنے پائے اس سے
جہاں بولے لگا کہنے کہ بس بس
گل و گلزار سے کیا قیدیوں کو
ہمیں داغ دل و کنج قفس بس
نہ ترساؤ یکایک مار ڈالو
کرو گے کب تلک ہم پر ترس بس
بہت کم دیتے تھے بادل دکھائی
رہے ہم ہی تو روتے اس برس بس
کسو محبوب کی ہو گور پر گل
ہماری خاک کو ہے خار و خس بس
چمن کے غم میں سینہ داغ ہے میرؔ
بہت نکلی ہماری بھی ہوس بس