کیوں رنگ پھرا سا ہے ترے سیب ذقن کا
غربت ہے دل آویز بہت شہر کی اس کے
آیا نہ کبھو ہم کو خیال اپنے وطن کا
جب زمزمہ کرتی ہے صدا چبھتی ہے دل میں
بلبل سے کوئی سیکھ لے انداز سخن کا
کب مشت نمک سے ہوئی تسکین جراحت
لب چش ہے نمک سار مرے زخم کہن کا
جو چاک گریبان کہ دامن کی ہو زہ تک
قربان کیا میرؔ اسے چاک کفن کا