آخرکار کیا کہا قاصد
کوئی پہنچا نہ خط مرا اس تک
میرے طالع ہیں نارسا قاصد
سر نوشت زبوں سے زر ہو خاک
راہ کھوٹی نہ کر تو جا قاصد
گر پڑا خط تو تجھ پہ حرف نہیں
یہ بھی میرا ہی تھا لکھا قاصد
یہ تو رونا ہمیشہ ہے تجھ کو
پھر کبھو پھر کبھو بھلا قاصد
اب غرض خامشی ہی بہتر ہے
کیا کہوں تجھ سے ماجرا قاصد
شب کتابت کے وقت گریے میں
جو لکھا تھا سو بہ گیا قاصد
کہنہ قصہ لکھا کروں تاکے
بھیجا کب تک کروں نیا قاصد
ہے طلسمات اس کا کوچہ تو
جو گیا سو وہیں رہا قاصد
باد پر ہے برات جس کا جواب
اس کو گذرے ہیں سالہا قاصد
نامۂ میرؔ کو اڑاتا ہے
کاغذ باد گر گیا قاصد