نہ گرم ہوکے بہت آگ ہو کے آب کرو
تمھارے عکس سے بھی عکس مجھ کو رشک سے ہے
نہ دیکھو آئینہ منھ سے مرے حجاب کرو
خراب عشق تو سرگشتہ ہوں ہی میں تم بھی
پھرا پھرا کے مجھے گلیوں میں خراب کرو
کہا تھا تم نے کہ ہر حرف پر ہے بوسۂ لب
جو باتیں کی ہیں تو اب قرض کا حساب کرو
ہوا ہے اہل مساجد پہ کام ازبس تنگ
نہ شب کو جاگتے رہنے کا اضطراب کرو
خدا کریم ہے اس کے کرم سے رکھ کر چشم
دراز کھینچو کسو میکدے میں خواب کرو
جہاں میں دیر نہیں لگتی آنکھیں مندتے میرؔ
تمھیں تو چاہیے ہر کام میں شتاب کرو