بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں
ان طیوروں سے ہوں میں بھی اگر آتی ہے صبا
باغ کے چار طرف آگ لگا دیتے ہیں
گرچہ ملتے ہیں خنک غیرت مہ یہ لڑکے
دل جگر دونوں کو یک لخت جلا دیتے ہیں
دیر رہتا ہے ہما لاش پہ غم کشتوں کی
استخواں ان کے جلے کچھ تو مزہ دیتے ہیں
اس شہ حسن کا اقبال کہ ظالم کے تئیں
ہر طرف سینکڑوں درویش دعا دیتے ہیں
دل جگر ہو گئے بیتاب غم عشق جہاں
جی بھی ہم شوق کے ماروں کے دغا دیتے ہیں
کیونکے اس راہ میں پا رکھیے کہ صاحب نظراں
یاں سے لے واں تئیں آنکھیں ہی بچھا دیتے ہیں
ملتے ہی آنکھ ملی اس کی تو پر ہم بے تہ
خاک میں آپ کو فی الفور ملا دیتے ہیں
طرفہ صناع ہیں اے میرؔ یہ موزوں طبعاں
بات جاتی ہے بگڑ بھی تو بنا دیتے ہیں