تو بوالہوس نہ کبھو چشم کو سیاہ کریں
تمھیں بھی چاہیے ہے کچھ تو پاس چاہت کا
ہم اپنی اور سے یوں کب تلک نباہ کریں
رکھا ہے اپنے تئیں روک روک کر ورنہ
سیاہ کر دیں زمانے کو ہم جو آہ کریں
جو اس کی اور کو جانا ملے تو ہم بھی ضعیف
ہزار سجدے ہر اک گام سربراہ کریں
ہوائے میکدہ یہ ہے تو فوت وقت ہے ظلم
نماز چھوڑ دیں اب کوئی دن گناہ کریں
ہمیشہ کون تکلف ہے خوب رویوں کا
گذار ناز سے ایدھر بھی گاہ گاہ کریں
اگر اٹھیں گے اسی حال سے تو کہیو تو
جو روز حشر تجھی کو نہ عذر خواہ کریں
بری بلا ہیں ستم کشتۂ محبت ہم
جو تیغ برسے تو سر کو نہ کچھ پناہ کریں
اگرچہ سہل ہیں پر دیدنی ہیں ہم بھی میرؔ
ادھر کو یار تامل سے گر نگاہ کریں