اک طبیعت تھی سو وہ بھی لاابالی ہو گئی

اک طبیعت تھی سو وہ بھی لاابالی ہو گئی
ہائے یہ تصویر بھی رنگوں سے خالی ہو گئی

پڑھتے پڑھتے تھک گئے سب لوگ تحریریں مری
لکھتے لکھتے شہر کی دیوار کالی ہو گئی

باغ کا سب سے بڑا جو پیڑ تھا وہ جھک گیا
پھل لگے اتنے کہ بوجھل ڈالی ڈالی ہو گئی

اب تو دروازے سے اپنے نام کی تختی اتار
لفظ ننگے ہو گئے شہرت بھی گالی ہو گئی

کھینچ ڈالا آنکھ نے سب آسمانوں پر حصار
بن چکے جب دائرے پرکار خالی ہو گئی

صبح کو دیکھا تو ساجد دل کے اندر کچھ نہ تھا
یاد کی بستی بھی راتوں رات خالی ہو گئی

اقبال ساجد

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *