شوق ثواب کچھ نہیں خوف عذاب کچھ نہیں

شوق ثواب کچھ نہیں خوف عذاب کچھ نہیں
جس میں نہ جوش جہد ہو اس کا شباب کچھ نہیں

زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے
موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں

نغمۂ نو کے واسطے غیر کی احتیاج کیا
چھیڑ دے تار ساز دل چنگ و رباب کچھ نہیں

صاف دلوں کے واسطے تنگ ہے عرصۂ حیات
ذات حباب خوب ہے عمر حباب کچھ نہیں

برہمن اور شیخ میں جھگڑے یہی ہیں رات دن
تیری کتاب کچھ نہیں تیری کتاب کچھ نہیں

رات کو مے کدے میں کل تھی کسی مست کی صدا
ایک نظر کا رنگ ہے رنگ شراب کچھ نہیں

امن لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *