آگ اس کی پھونک دیتی ہے برنا و پیر کو
لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحب یقیں
ہوتا ہے کوہ و دشت میں پیدا کبھی کبھی
وہ مرد جس کا فقر خزف کو کرے نگیں
تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامہ حق نے تری جبیں
یہ نیلگوں فضا جسے کہتے ہیں آسماں
ہمت ہو پرکشا تو حقیقت میں کچھ نہیں
بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں
زیر پر آگیا تو یہی آسماں ، زمیں!