فرقت آفتاب میں کھاتی ہے پیچ و تاب صبح
چشم شفق ہے خوں فشاں اختر شام کے لیے
رہتی ہے قیس روز کو لیلی شام کی ہوس
اختر صبح مضطرب تاب دوام کے لیے
کہتا تھا قطب آسماں قافلہ نجوم سے
ہمرہو ، میں ترس گیا لطف خرام کے لیے
سوتوں کو ندیوں کا شوق ، بحر کا ندیوں کو عشق
موجہء بحر کو تپش ماہ تمام کے لیے
حسن ازل کہ پردہء لالہ و گل میں ہے نہاں
کہتے ہیں بے قرار ہے جلوہء عام کے لیے
راز حیات پو چھ لے خضر خجستہ گام سے
زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے