عبد القادر کے نام

عبد القادر کے نام
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط
اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں
اہل محفل کو دکھا دیں اثر صیقل عشق
سنگ امروز کو آئینہ فردا کر دیں
جلوہ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو
تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں
اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر
قطرہ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں
رخت جاں بت کدہء چیں سے اٹھا لیں اپنا
سب کو محو رخ سعدی و سلیمی کر دیں
دیکھ! یثرب میں ہوا ناقہ لیلی بیکار
قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں
بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز
جگر شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں
گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ
چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں
شمع کی طرح جییں بزم گہ عالم میں
خود جلیں ، دیدہ اغیار کو بینا کر دیں
”ہر چہ در دل گذرد وقف زباں دارد شمع
سوختن نیست خیالے کہ نہاں دارد شمع”
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *