اوروں کا ہے پیام اور ، میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے
طائر زیر دام کے نالے تو سن چکے ہو تم
یہ بھی سنو کہ نالہء طائر بام اور ہے
آتی تھی کوہ سے صدا راز حیات ہے سکوں
کہتا تھا مور ناتواں لطف خرام اور ہے
جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا
اس کا مقام اور ہے ، اس کا نظام اور ہے
موت ہے عیش جاوداں ، ذوق طلب اگر نہ ہو
گردش آدمی ہے اور ، گردش جام اور ہے
شمع سحر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز
غم کدہء نمود میں شرط دوام اور ہے
بادہ ہے نیم رس ابھی ، شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسیا ابھی