سن اے طلب گار درد پہلو! میں ناز ہوں ، تو نیاز ہو جا
میں غزنوی سومنات دل کا ، تو سراپا ایاز ہو جا
نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری سے
تمام ساماں ہے تیرے سینے میں ، تو بھی آئینہ ساز ہو جا
غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا
جہاں کا فرض قدیم ہے تو ، ادا مثال نماز ہو جا
نہ ہو قناعت شعار گلچیں! اسی سے قائم ہے شان تیری
وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا
گئے وہ ایام ، اب زمانہ نہیں ہے صحرانوردیوں کا
جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا
وجود افراد کا مجازی ہے ، ہستی قوم ہے حقیقی
فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا