تو ابتدا میں مرے ساتھ ہی نہ چلنا تھا
کچھ اس لیے بھی تو سورج زمیں پر اترا ہے
پہاڑیوں پہ جمی برف کو پگھلنا تھا
اتر کے دل میں لہو زہر کر گیا آخر
وہ سانپ جس کو مری آستیں میں پلنا تھا
یہ کیا کہ تہمتیں آتش فشاں کے سر آئیں؟
زمیں کو یوں بھی خزانہ کبھی اُگلنا تھا
میں لغزشوں سے اَٹے راستوں پہ چل نکلا
تجھے گنوا کے مجھے پھر کہاں سنبھلنا تھا
اسی کو صبحِ مسافت نے چور کر ڈالا
وہ آفتاب جسے دوپہر میں ڈھلنا تھا
عجب نصیب تھا محسن کہ بعدِ مرگ مجھے
چراغ بن کے خود اپنی لحد پہ جلنا تھا
محسن نقوی