فلک پر اک ستارہ رہ گیا ہے

فلک پر اک ستارہ رہ گیا ہے
مرا ساتھی اکیلا رہ گیا ہے
یہ کہہ کر پھر پلٹ آئیں ہوائیں!
شجر پر ایک پتا رہ گیا ہے
ہر اک رُت میں ترا غم ہے سلامت
یہ موسم ایک جیسا رہ گیا ہے
ہمارے بعد کیا گزری عزیزو!
سنائو شہر کیسا رہ گیا ہے ؟
برس کچھ اور اے آوارہ بادل
کہ دل کا شہر پیاسا رہ گیا ہے
خداوندا سنبھال اپنی امانت
بشر دنیا میں تنہا رہ گیا ہے
حوادث کس لیے ڈھونڈیں گے مجھ کو؟
مرے دامن میں اب کیا رہ گیا ہے ؟
ستارے بانٹتا پھرتا ہوں محسن
مگر گھر میں اندھیرا رہ گیا ہے
محسن نقوی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *