محبت اسی سے ہے مشکل یہی ہے
عداوت ہوئی برق سے باغباں سے
نشیمن بنانے کا حاصل یہی ہے
تڑپنا برابر تڑپتے ہی رہنا
ترے در پہ انداز بسمل یہی ہے
بہت دور منزل مگر ہر قدم پر
تھکن کا تقاضا کہ منزل یہی ہے
مرے قتل کا ذکر ہے اور وہ چپ
خموشی نہ کہہ دے کہ قاتل یہی ہے
مجھے تو ہنسی اپنے غم پر نہ آتی
مگر کیا کروں رنگ محفل یہی ہے
وہاں سے ارم ہم ہٹا لائے کشتی
یہاں یہ سمجھنا تھا ساحل یہی ہے
ارم لکھنوی