ورق ورق یہ فسانہ بکھرنے والا تھا

ورق ورق یہ فسانہ بکھرنے والا تھا
بچا لیا مجھے اس نے میں مرنے والا تھا

شگفتہ پھول پریشاں ہوا تو غم نہ کرو
کہ وہ تو یوں بھی ہوا میں بکھرنے والا تھا

میں اس کو دیکھ کے پھر کچھ نہ دیکھ پاؤں گا
یہ حادثہ بھی مجھی پر گزرنے والا تھا

صدائے سنگ نے مجھ کو بچا لیا ورنہ
میں اس پہاڑ سے ٹکرا کے مرنے والا تھا

میں بے قصور ہوں یہ فیصلہ ہوا ورنہ
میں اپنے جرم کا اقرار کرنے والا تھا

پہاڑ سینہ سپر ہو گیا تھا میرے لیے
وگرنہ مجھ میں سمندر اترنے والا تھا

احتشام اختر

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *