ہم جو عظیم لوگ ہیں ہم بے ضمیر ہیں
اے دخترن شوخ و بدن صندلین شہر
ہم لوگ التفات کے قابل نہیں نہیں
زنہار ہم کو وصل سے کرنا نہ شاد کام
ہم حسن کی زکات کے قابل، نہیں نہیں
ہم سب تمہارے سر کی قسم بے ضمیر ہیں
اے شہر! تیرے ہل قلم بے ضمیر ہیں
ہم کازبوں کی بات کا کیا خاک اعتبار
اپنی ہر اک غزل میں رواں ہیں بہ سوئے دار
یوں دیکھیے تو دیر و حرم سے ہمیں ہے عار
در پردہ ہم ہیں دیر و حرم کے وظیفہ خوار
ہم باغیان دیر و حرم، بے ضمیر ہیں
اے شہر! تیرے ہل قلم بے ضمیر ہیں
روح عوام، زخم سہے، ہم غزل کہیں
اک شہر سوگوار رہے، ہم غزل کہیں
اک خلق اپنا درد کہے، ہم غزل کہیں
محبت کشوں کا خون بہے، ہم غزل کہیں
کیا رہ گیا ہمارا بھرم، بے ضمیر ہیں
اے شہر! تیرے ہل قلم بے ضمیر ہیں
ہم اک عجب غرور سے لے کر ادب کا نام
اے سامعین! تم پہ مسلط ہیں صبح و شام
ہو بولنے کا وقت تو گونگے بنے رہیں
اہل سخن ہیں اور سخن کے نمک حرام
ہم دم بھریں گے فن کا، یہ دم؟ بے ضمیر ہیں
اے شہر! تیرے ہل قلم بے ضمیر ہیں
باطل پرست، حرف اناالحق کے سود خوار
ہم بیچ کھائیں سرمد و منصور کے مزار
بعد از وقوع واقعہ سینہ زنی میں طاق
پرسہ جو دو تو سارے زمانے کے سوگوار
ہم ماہران پیشہِ غم، بے ضمیر ہیں
اے شہر! تیرے ہل قلم بے ضمیر ہیں
ہم نسل سے ہیں ابن بطوطہ کی بالیقیں
روداد ہم سے چین کی، ماچین کی سنو
یہ مت سنو کہ شاہ کا بندوں سے کیا ہے طور
تعریف صرف شاہ کے آئین کی سنو
یہ داد اپنے حق سے ہے کم، بے ضمیر ہیں
اے شہر! تیرے ہل قلم بے ضمیر ہیں
یہ ناقدین شعر، ادب کے معلمین
اکثر غلط ہو جن کا تلفظ بھی قارئین
یہ لوگ آسمان و زمیں میں کہیں نہ ہوں
اگلے جو آسمان تو نگلے انھیں زمین
تفصیل کیا کروں میں رقم، بے ضمیر ہیں
اے شہر! تیرے ہل قلم بے ضمیر ہیں
میں شہر امتحاں میں پھرا ہوں گلی گلی
اہل وفا کے ساتھ گیا ہوں گلی گلی
تھی جن کو فرط شوق میں قتل کی جستجو
میں ان کے ساتھ ساتھ رہا ہوں گلی گلی
غائب تھے ان کے نقش قدم، بے ضمیر ہیں
اے شہر! تیرے ہل قلم بے ضمیر ہیں
ہم جو عظیم لوگ ہیں، ہم بے ضمیر ہیں
جون ایلیا