تمنا

تمنا
ہر نفس، سوزِ تمّنا سے عبارت ہے وجود
کربِ صد گُو نہ تمّنا کی حکایت ہے وجود
نغمہِ وقت اِک آہنگِ تمّنا ہی تو ہے
یعنی جو کچھ ہے وہ نیرنگِ تمّنا ہی تو ہے
زندگی یوسفِ فطرت کی زلیخائی ہے
اِک تمّنا ہے کہ خود اپنی تمّنائی ہے
یہ مشّیت تھی کہ آدم کو سزا دی جائے
یعنی دیوانے کی وحشت کو ہوا دی جائے
شوقِ سر گست کو سر گشتہِ مقسوم کیا
دل کے صفحے پہ تمّناؤں کو برقوم کیا
دل کی تقدیر ہے مجبورِ تمّنا ہونا
ہر نفس، تازہ تمّنا کا خودآرا ہونا
اس تسلسل میں کہیں وقفہِ آرام نہیں
ایک آغازِ مسلسل ہے اور انجام نہیں
اس تسلسل کو بدلنے کی تمّنا ہے مجھے
جبر کی حد سے نکلنے کی تمّنا ہے مجھے
روح آزاد ہو مجبورِ تقاضا نہ رہے
ہے تمّنا کہ مجھے کوئ تمّنا نہ رہے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *