خوب شراب پی گئی اور خراب پی گئی
شکوہ جو ہےتو اس کا ہے شکوہ نہیں کیا گیا
رنج جو ہے تو اس کا ہے بات فقط سہی گئی
بال وپر نشاط کیا، ہم سے تو اس قفس کے بیچ
بال و پر خیال کی، زاد بھی چھین لی گئی
پہلوے احمریں کہاں، خواب زمردیں کہاں
یاد پریدہ رنگ بھی، دل سے نکال دی گئی
سود و زیاں تو خیر کیا، ان کی تمیز ہے عجب
ویسے اسی تمیز میں اپنی تو زندگی گئی
جس کا سرود روشنی محفل شب فروز تھا
اس دل داغ زار سے اپنی ہی روشنی گئی
افشرہ لباں ترا، ہم کو نصیب کب ہوا
سیل تمام زہر کی، نذر دہن کو دی گئی
ناف پیالہ اس کا تھا، جون، ترے لیے تو سن
ایسے میں جام جم سے، کیوں اے مرے یار! پی گئی
جون ایلیا