جشن کا آسیب

جشن کا آسیب
سکوتِ بیکراں میں سہ پہر کا چوک ویراں ہے
دکانیں بند ہیں
سارے دریچے بے تنفس ہیں
در و دیوار کہتے ہیں
یہاں سے ایک سیلِ شعلہ ہائے تُند گزرا ہے
پھر اُسکے بعد کوئی بھی نہیں آیا
خموشی کوچہ و برزن میں فریادی ہے
کوئی تو گزر جائے
کوئی آوازِ پا آئے
شمارِ لمحہ و ساعت سے بیگانہ فضا میں
اِک صدائے پرفشانی کوند اُٹھتی ہے
کوئی طائر فضا میں سایہ آسا تیر جاتا ہے
سگانِ زرد کا اِک غول اِک کوچے سے نکلا ہے
وہ تیزی سے گزر جاتے ہیں
وہ اور اُن کے سایے بھی
سکوتِ بیکراں میں سہ پہر کا چوک ویراں ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *