بیقراری قرار ہے ، اماں ہاں
ایزدِ یزداں ہے تیرا انداز
اہرمن دل فگار ہے ، اماں ہاں
میرے آغوش میں جو ہے اُس کا
دَم بہ دَم انتظار ہے ، اماں ہاں
ہے رقیب اُس کا دوسرا عاشق
وہی اِک اپنا یار ہے ، اماں ہاں
یار زردی ہے رنگ پر اپنے
سو خزاں تو بہار ہے ، اماں ہاں
لب و پستان و ناف اس کے نہ پوچھ
ایک آشوبِ کار ہے ، اماں ہاں
سنگ در کے ہوں یا ہوں دار کے لوگ
سب پہ شہوت سوار ہے ، اماں ہاں
اب تو انساں کے معجزے ہیں عام
اور انسان خوار ہے ، اماں ہاں
جون ایلیا