دوسرا خواب پہلے خواب کے شہر میں

دوسرا خواب پہلے خواب کے شہر میں
کہا جائے گا تم سے یہ وہ شہرِ رنگ ہے
ہمارے شاعرِ حرماں نصیبِ جاں
ہمارے ہنصدِ امروز و فردا کے نوجوانوں نے
تمھارے شاعریِ روزی طلب، فن کے فسوں گر پیشہ پیماں نے
ازل میں اپنی ذاتِ رمز پرور کے ازل میں
اپنا خوابِ ماجرا انگیز یاقوت پرور و زمرد فام دیکھا تھا
عجب اک خواب یاقوت و زمرد فامِ پُر الہام دیکھا تھا
٭
تم اُس شاعر کے خوابِ اولیں کے شہر میں آئی ہو
خوابِ اوّلیں جس کا دل و جاں نازنیں پیکر
سراپا اک محشر ماجرا تھا
اور شاعر اپنے شہرِ جاوداں کے سارے خوابوں کی
فضا میں نغمہ خوان و پُر نوا رہتا تھا
اُس کی نغمہ خوانی پُر نوائی
شہر کو پُرحال رکھتی تھی
٭
یہاں کے صحن و دالانِ شبانہ آج بھی شاعر کے خوابِ اوّلین نازنین
کی حال آگیں حالتوں کو طرح کرتے ہیں
اب اُس شاعر کی یادیں رہ گئی ہیں، داستانیں رہ گئی ہیں
جانے والے خود چلے جاتے ہیں
اور اپنی داستانیں، اپنی یادیں چھوڑ جاتے ہیں
٭
دریچے وہ دریچے جن سے اُس شاعر کے
خوابِ اوّلیں کا جاوداں ہنگام رشتہ تھا
انہیں اب اپنی بینائ گنوائے اِک زمانہ ہو چُکا ہے
اِک زمانہ
ایک بیگانہ زمانہ
اور اس کا ایک آزردہ زمانہ
اور اب تم اُس افسانے کی تمامی بن کے آئی ہو
تم اس صد حال ہنگامہ زمانے کی تمامی بن کے آئی ہو
یہاں سے جا کے اس غربت زدہ شاعر کو اپنے شہر میں ناشاد مت کرنا
اسے برباد مت کرنا
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *