دید کی ایک آن میں کارِ دوام ہو گیا

دید کی ایک آن میں کارِ دوام ہو گیا
وہ بھی تمام ہوگیا، میں بھی تمام ہوگیا
اب میں ہوں اک عذاب میں اور عجب عذاب میں
جنت پر سکوت میں، مجھ سے کلام ہو گیا
آہ! وہ عیشِ راز جاں‘ ہائے! وہ عیشِ راز جاں
ہائے! وہ عیشِ راز جاں‘ شہر میں عام ہو گیا
رشتہِ رنگ جاں مرا، نکہت ناز سے تری
پختہ ہوا اور اس قدر، یعنی کہ خام ہو گیا
پُوچھ نہ وصل کا حساب، حال ہے اب بہت خراب
رشتہِ جسم و جاں کے بیچ‘ جسم حرام ہو گیا
شہر کی داستاں نہ پوچھ، ہے یہ عجیب داستاں
آنے سے شہر یار کے شہر غلام ہو گیا
دل کی کہانیاں بنیں‘ کوچہ بہ کوچہ‘ کو بہ کو
سہہ کے ملالِ شہر کو شہر میں نام ہو گیا
جون کی تشنگی کا تھا خوب ہی ماجرا کہ جو
مینا بہ مینا، مے بہ مے، جام بہ جام ہو گیا
ناف پیالے کو ترے دیکھ لیا مغاں نے جان
سارے ہی میکدے کا آج، کام تمام ہو گیا
اُس کی نگاہ اُٹھ گئی، اور میں اُٹھ کے رہ گیا
میری نگاہ جُھک گئی اور سلام ہو گیا
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *