صبح ِنو کے روشن لمحے، شب خانوں تک آ پہنچے
کتنے عنوان لرزاں خیزاں ہیں ، لوح وقلم ہیں محفوظ
کتنے عنوان خون میں غلطاں، افسانوں تک آ پہنچے
مصر کے بازروں سے کتنے یوسف آ کر لوٹ گئے
کتنے ہوسف چاک بداماں، کنعانوں تک آ پہنچے
کانپ رہے ہیں آہن پیکر زنجیروں کے پیچ و خم
آزادی کے دیوانے کیا، زندانوں تک آ پہنچے
کتنے رستے میخانوں سے دار و رسن تک جاتے ہیں
ہاتھ ہمارے پھر بھی ساقی، پیمانوں تک آ پہنچے
آج بغاوت برپا کرنے جام و مینا اٹھے ہیں
راز ہماری تشنہ لبی کے، میخانوں تک آ پہنچے
رنگ اور رس کے بادل برسے صبح بہاراں جاگ اٹھی
غنچے لے کر روپ سندیسے، ویرانوں تک آ پہنچے
جون ایلیا