رنگ لایا ہے عجب رنج خمار آخر شب

رنگ لایا ہے عجب رنج خمار آخر شب
حالت آئی ہے ہم آغوش ہیں یار آخر شب
حسرت رنگ بھی ہے خواہش نیرنگ بھی ہے
دیدنی فصل گماں کی ہے بہار آخر شب
جونہی بوجھل ہوئیں پلکیں تو پڑی مستوں میں
اُس کی دزدیدہ نگاہوں کی پکار آخر شب
صبح ہو گی مگر اس خواب سے کچھ کم ہو گی
عجب اک خواب ہے خوابوں کا دیار آخر شب
جا کے دینا ہے سحر دم ترے کوچے میں حساب
کر رہے ہیں ترے رند اپنا شمار آخر شب
کیا ہے بکھری ہے جو محفل کہ ہیں دل پُر محفل
رقص برپا ہے سرِ راہ گزر آخر شب
ہر پلک کار گزاری میں نگہ کی ہو بسر
آخر شب ہے سو آنکھوں میں گزار آخر شب
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *