سخن آتے ہیں اس کے یاد بہت

سخن آتے ہیں اس کے یاد بہت
دل کو تھا اس سے اتحاد بہت
جب بھی چلتی ہے اس طرف سے ہوا
شور کرتے ہیں نامراد بہت
حُسن پر اس کے نکتہ چیں ہی رہے
تھا طبیعت میں اجتہاد بہت
درمیانِ ہجومِ مشّاقاں
اُس گلی میں رہے فساد بہت
اس کا روزِ سفر اور آج کی شام
درمیاں میں ہے امتداد بہت
مجھ سے اک بادیہ نشیں نے کہا
شہر والے ہیں بدنہاد بہت
زخمِ دل کو بناؤ زخمہ ءِ ساز
بستیوں سے ملے گی داد بہت
جونؔ اسلامیوں سے بحث نہ کر
تُند ہیں یہ ثمود و عاد بہت
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *