سب چلے جاؤ مجھ میں تاب نہیں

سب چلے جاؤ مجھ میں تاب نہیں
نام کو بھی اب اِضطراب نہیں
خون کر دوں تیرے شباب کا میں
مجھ سا قاتل تیرا شباب نہیں
اِک کتابِ وجود ہے تو صحیح
شاید اُس میں دُعاء کا باب نہیں
تو جو پڑھتا ہے بو علی کی کتاب
کیا یہ عالم کوئی کتاب نہیں
اپنی منزل نہیں کوئی فریاد
رَخش بھی اپنا بد رکاب نہیں
ہم کتابی صدا کے ہیں لیکن
حسبِ منشا کوئی کتاب نہیں
بھول جانا نہیں گناہ اُسے
یاد کرنا اُسے ثواب نہیں
پڑھ لیا اُس کی یاد کا نسخہ
اُس میں شہرت کا کوئی باب نہیں
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *