عجب اک طور ہے جو ہم ستم ایجاد رکھیں

عجب اک طور ہے جو ہم ستم ایجاد رکھیں
کہ نہ اُس شخص کو بُھولیں نہ اُسے یاد رکھیں
عہد اُس کُوچہِ دل سے ہے سو اُس کوچہ میں
ہے کوئی اپنی جگہ ہم جسے برباد رکھیں
کیا کہیں کتنے ہی نُقطے ہیں جو برتے نہ گئے
خوش بدن عشق کریں اور ہمیں اُستاد رکھیں
بے ستون اک نواحی میں ہے شہرِ دل کی
تیشہ انعام کریں اور کوئی فرہاد رکھیں
آشیانہ کوئی اپنا نہیں پر شوق یہ ہے
اک قفس لائیں کہیں سے کوئی صیاد رکھیں
ہم کو انفاس کی اپنے ہے عمارت کرنی
اس عمارت کی لبوں پر ترے بنیاد رکھیں
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *